الہام کی رم جھم کہیں بخشش کی گھٹا ہے
یہ دل کا نگرہے کہ مدینے کی فضا ہے
سانسوں میں مہکتی ہیں مناجات کی کلیاں
کلیوں کے کٹوروں پہ ترا نام لکھا ہے
آیات کی جھرمٹ میں ترے نام کی مسند
لفظوں کی انگوٹھی میں نگینہ سا جڑا ہے
خورشید تری راہ میں بھٹکتا ہوا جگنو
مہتاب ترا ریزہ ء نقشِ کفِ پا ہے
واللیل ترے سایہ گیسو کا تراشا
والعصر تری نیم نگاہی کی ادا ہے
لمحوں میں سمٹ کر بھی ترا درد ہے تازہ
صدیوں میں بھی بکھر کر ترا عشق نیا ہے
سورج کو ابھرنے نہیں دیتا تیرا حبشی
بے زر کو ابو ذر تیری بخشش نے کیا ہے
اب اور بیاں کیا ہو کسی سے تیری مدحت
یہ کم تو نہیں ہے کہ تو محبوب ﷺ خدا ہے
اے گنبدِ خضرٰی کے مکیں مدد کر
یا پھر یہ بتا کون میرا تیرے سوا ہے
اک بار تیرا نقشِ قدم چوم لیا تھا
اب تک یہ فلق شکر کے سجدے میں جھکاہے
بخشش تیرے ابرو کی طرف دیکھ رہی ہے
محسنؔ تیرے دربار میں چپ چاپ کھڑا ہے